Special Award: Unique Voice - Nabeeha Qadri, Ibraheem Qadri (Urdu Translation)
What Compromise Leads (English)
"The only thing that shatters dreams is compromise." – Richard Bach
But I believe this is untrue. What if the compromises one makes for a dream do not make them
unsuccessful? What if it makes the eventual accomplishment of the goal even more rewarding?
This was the case for my mom, Naureen Qadri, who immigrated to the United States after
marrying my father, Ghazi Qadri. Amma wanted to become a doctor since she was in
kindergarten. She explained, "I was just born to be a doctor, though I came from a family of
engineers. The way you could improve people's lives, the human connection inspired me."
A few years after completing medical school, my parents got married. My father was a
physician; Baba got a good job in Minnesota after finishing his residency in Fargo (He
immigrated in 2003). Even though moving to the U.S. would mean leaving her home in Karachi,
Amma was excited because it meant she could complete her medical education.
Naureen arrived in Minnesota on New Year’s Eve, 2006, welcomed by her husband and the
freezing cold. She thought she only needed a winter coat and a hat because the coldest it ever got in Karachi in winter was sixty degrees Fahrenheit. "I never imagined that it would be this cold. I was absolutely chilled to the bone," Amma confessed. It took Amma a few years to acclimate to
the weather after growing up near the beach.
On New Year's Day, a friend hosted a party to welcome her because she was a new bride and a
new arrival. Amma took out a blue shalwar kameez (traditional clothes worn in Pakistan) from
her suitcase and a pair of open-toed silver heels to wear. Big mistake. The heels were horrible for
walking on ice, and she stumbled across the driveway to ring the doorbell. The friend opened the door, smiled, and declared, "Welcome to the icebox." (My parents remembered this statement distinctly even after seventeen years.)
Overall, the journey to the U.S. was comfortable, but the day-to-day life was challenging. Amma
was used to living in a big household with her parents, brother, and sister and extended family
living nearby. She was consumed by the crushing loneliness that came with the move to a new
country, with few friends and no family living in or near Minnesota. Her days waiting for Baba
to come home after long hospital shifts were filled with hours of talking to her family on the
phone and telling them every detail about her new life.
After a few months, Amma bought books and started preparing for the board exams to become a doctor in the U.S. But she became pregnant and, after two miscarriages, which was extremely
painful in itself, gave birth to me three years later. Amma thought she could manage a career and raise a child simultaneously like many mothers did. But she saw many people around her neglect their kids to support the family. She realized that raising one's kids with cultural values was necessary, so she paused on her studies to give her full attention to my younger brother and me. Because of her sacrifice, my brother and I have a solid sense of identity, can speak Urdu fluently, and have a strong connection with our family in Pakistan.
Even though Amma’s dream was put on hold, she never gave up on it. Living in the U.S. built
her resilience, especially after coming from a life of comfort in Karachi, where she had a support
system where she could have relied on her family to take care of her children while pursuing her
career. Amma has a strong faith and firmly believes that "God always has one's best interest in
mind if one is sincere in their actions." Life turned out differently than expected, but Amma
learned that compromise is what makes dreams come true.
What Compromise Leads (Urdu)
" ایک چیز جو خوابوں کو توڑ دیتی ہے وہ ہے سمجھوتہ۔” - رچرڈ باخ
لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ غلط ہے۔ اگر کوئی سمجھوتہ اپنے خواب کے لیے کرتا ہے تو وہ انہیں ناکام نہیں بناتا؟ بلکہ یہ خواب کی حتمی تکمیل کو اور زیادہ فائدہ مند بناتا ہے؟
یہی حال میری والدہ (امّاں)، نورین قادری کا تھا، جو میرے والد غازی قادری سے شادی کرنے کے بعد امریکہ ہجرت کر گئیں۔ امّاں جب سےکےجی میں تھیں، ہمیشہ سے ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کے "میں صرف ایک ڈاکٹر بننے کے لیے پیدا ہوئی ہوں، جبکہ میں انجینئرز کے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ انسانیت کی خدمت اور لوگوں سے تعلق نے مجھے اس کام سے متا ئثر کیا۔
میڈیکل کی تعلیم مکمّل کرنے کے چند سال بعد، میرے والدین نے شادی کر لی۔ میرے والد(بابا) بھی ایک طبیب ھیں۔ بابا کو فارگو میں اپنی ٹرینیگ ختم کرنے کے بعد مینیسوٹا میں اچھی نوکری مل گئی۔اسی دوران
میری اماں بابا کی منگنی ہو گئی۔ ایک طرف اماں اپنی منگنی سے بہت خوش تہیں لیکن دوسری طرف انہیں
یہ احساس ستا رہا تھا کہ انھیں اپنے رشتےدار اور کراچی چھوڑ کر امريکا جانا پڑے گا ۔ اسی طرف انھیں اپنی میڈیکل کی پڑھائی مکمل کرنے کا موقع مل رہا تھا۔
یہ نئے سال کی شام تھی،۲۰۰۶، جب نورین مینیسوٹا پہنچی، اور ان کے شوہر اور شدید سردی نے ان کا استقبال کیا۔ لوگوں نے انہی بتایا تھا کہ سردی ہونے والی ہے (سردی کا مترادف استعمال کریں)۔ لیکن ان نے سوچا کہ انہیں صرف موسم سرما کے کوٹ اور ٹوپی کی ضرورت ہوگی کیونکہ سردیوں میں کراچی میں اب تک کی سب سے زیادہ سردی ۷۰ ڈگری فارن ہائیٹ تھی۔ "میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنی سردی ہے۔ میری ہڈّی بالکل ٹھنڈی ہو گئی تھی،‘‘ امّاں نے اعتراف کیا۔ ساحل سمندر کے قریب بڑے ہونے کے بعد، میری ماں کو موسم کے مطابق ہونے میں چند سال لگے۔
نئے سال کے دن، مینیسوٹا میں اس کے پہلے دن، ایک دوست نے اس کے استقبال کے لیے ایک داوت کی میزبانی کی، اور کیونکہ وہ ایک نئی دلہن اور نئی آمد تھی۔ امّاں نے اپنے بکسہ سے نیلے رنگ کی شلوار قمیض (پاکستان میں پہنا جانے والا روایتی لباس) اور پہننے کے لیے چاندی کی کھلی ایڑیوں کا ایک جوڑا نکالا۔ یہ ایک بڑی غلطی تھی۔ برف پر چلنے کے لیے ایڑیاں بہترین نہیں تھیں اور میری ماں دروازے کی گھنٹی بجانے کے لیے ڈرائیو وے پر ٹھوکر کھا گئی۔ دوست نے دروازہ کھولا، مسکرایا، اور اعلان کیا، "آئس باکس میں خوش آمدید۔" (یہ بیان میرے والدین کو سترہ سال بعد بھی واضح طور پر یاد تھا۔)
مجموعی طور پر، امریکہ کا سفر بہت آرام دہ تھا، لیکن روزمرہ کی زندگی بہت مختلف تھی اور اس کا عادی ہونا مشکل تھا۔ امّاں اپنے والدین، بھائی اور بہن کے ساتھ ایک بڑے گھر میں رہنے کی عادی تھیں، اور اپنے تمام وسیع خاندان کے ساتھ بہت قریب رہتی تھیں اور وہ اکثر آتی جاتی تھیں۔ وہ کچلنے والی تنہائی سے کھا گئی تھی جو ایک نئے ملک میں جانے کے ساتھ آئی تھی، اور وہ بھی بہت کم دوستوں کے ساتھ، اور مینیسوٹا میں یا ان کے آس پاس رہنے والا کوئی خاندان نہیں تھا۔ ہسپتال کی طویل شفٹوں کے بعد بابا کے گھر آنے کے انتظار میں ان کے دن گھنٹوں فون پر اپنے گھر والوں سے بات کرنے اور انہیں اپنی نئی زندگی کے بارے میں ہر چھوٹی سے چھوٹی تفصیل بتانے سے بھر گئے تھے۔
چند مہینوں کے بعد امّاں نے کچھ کتابیں خریدیں اور امریکہ میں ڈاکٹر بننے کے لیے بورڈ کے امتحانات کی تیّاری شروع کر دی لیکن وہ حاملہ ہو گئیں اور دو اسقاط حمل کے بعد جو کہ اپنے آپ میں انتہائی تکلیف دہ تھی، تین سال بعد مجھے جنم دیا۔ امّاں نے سوچا کہ وہ بہت سی ماؤں کی طرح بچے کی پرورش کے ساتھ اپنا کیریئر سنبھال سکیں گی۔ لیکن ان نے اپنے اردگرد بہت سے لوگوں کو اپنے بچوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ خاندان کی کفالت اور کیریئر بنانے کے لیے۔ اور ان نے محسوس کیا کہ اپنے بچوں کی ثقافتی اقدار اور روایات کے ساتھ پرورش کرنا ضروری ہے، اس لیے اس نے اپنی پوری توجہ مجھ پر اور میرے چھوٹے بھائی پر دینے کے لیے اپنی پڑھائی چھوڑ دی۔ ان کی قربانی کی وجہ سے، میں اور میرے بھائی کی شناخت کا پختہ احساس ہے اور ہم روانی سے اُردُو بول سکتے ہیں، اور پاکستان میں ہمارے خاندان کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
اگرچہ میری ماں کا خواب روک دیا گیا تھا، ان نے اسے کبھی نہیں چھوڑا۔ امریکہ میں رہنے سے ان کی لچک پیدا ہوئی، خاص طور پر کراچی میں آرام کی زندگی سے آنے کے بعد، جہاں ان کے پاس ایک محفوظ سپورٹ سسٹم تھا جہاں وہ اپنے کیریئر کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنے خاندان پر انحصار کر سکتی تھی۔ اماں کا پختہ یقین ہے اور پختہ یقین ہے کہ "اگر کوئی اپنے اعمال میں مخلص ہے تو خدا ہمیشہ کسی کے بہترین مفاد کو ذہن میں رکھتا ہے۔" امریکہ آنا میری والدہ کے بہترین مفاد میں تھا۔ زندگی توقع سے مختلف نکلی، پھر بھی ان نے اس کا بہترین فائدہ اٹھایا۔ زندگی توقع سے مختلف نکلی، اور امّاں نے سیکھا کہ سمجھوتہ ہی خوابوں کو حقیقت بناتا ہے۔